کیا عمران کا لانگ مارچ انقلاب لائے گا یا گواچ جائے گا؟
معروف لکھاری اور تجزیہ کار وجاہت مسعود نے کہا ہے کہ پاکستان کی اس سے بڑی بد قسمتی اور کیا ہو سکتی ہے کہ لانگ مارچ لیکر نکلنے والے عمران خان اور ان کے رفقا کھلے عام خونریزی کی باتیں کر رہے ہیں۔ کیا پاکستان کے شہریوں کا لہو اتنا بے وقعت ہے کہ اسے عمران کی ہوس اقتدار کی بھینٹ چڑھا دیا جائے۔ شاید موصوف بالکل بھی نہیں جانتے کہ انقلاب اور جمہوریت دو الگ الگ سیاسی نمونے ہیں۔ پاکستان ایک جمہوری عمل کے ذریعے حاصل کیا گیا تھا۔ اسکے بانی محمد علی جناح دستور پسند سیاست پر یقین رکھتے تھے۔ لہٰذا پاکستان کو انقلاب کی نہیں، بلکہ جمہوری تسلسل کی ضرورت ہے۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں وجاہت مسعود کہتے ہیں کہ غیر جانبدار مبصرین کے مطابق عمران کے قسطوں میں چلنے والے انوکھے لانگ مارچ میں شرکا کی تعداد توقعات سے خاصی کم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عمران اس لانگ مارچ کو وقفے وقفے سے شارٹ کر رہے ہیں اور دن کو شروع کرنے کے بعد رات کو ختم کر دیتے ہیں۔ 28 اکتوبر کو لانگ مارچ کے آغاز کے وقت لاہور کے لبرٹی چوک میں عمران خان کی تقریر کے دوران پورے۔
پاکستان سے صرف 8 سے 10 ہزار افراد موجود تھے لیکن اس کے بعد کہیں بھی ہجوم دو یا تین ہزار سے نہیں بڑھ سکا۔ اس صورت حال کے کچھ اسباب اپنی محدود فہم کے مطابق عرض کر دیتا ہوں۔ بظاہر اس سرگرمی کو ”حقیقی آزادی لانگ مارچ“ کا عنوان دیا گیا ہے لیکن معمولی سیاسی شعور رکھنے والے افراد جانتے ہیں کہ ”حقیقی آزادی“ کی مجرد اصطلاح سائفر کی مبینہ سازش سے برامد کی گئی ہے اور اس نعرے میں عوام کے لئے کوئی خاص کشش نہیں۔ سائفر کے معاملے پر نیشنل سیکورٹی کمیٹی، ملکی سیاسی قیادت اور متعلقہ غیر ملکی حلقوں نے سنجیدگی سے بار بار واضح کیا ہے کہ ایسی کسی سازش کا کوئی ثبوت نہیں مل سکا۔
وجاہت مسعود کا کہنا ہے کہ عمران کے حقیقی اہداف دو تھے۔ وہ نئے آرمی چیف کی تقرری کے معاملے میں عمل دخل چاہتے تھے لیکن دستور کی شق 243 کے تحت میں یہ تقرری وزیراعظم کی تجویز پر صدر نے کرنا ہے۔ گویا مسلح افواج کے سربراہان کی تقرری وزیراعظم کا غیر مشروط اختیار ہے۔ نیب کے سربراہ اور الیکشن کمیشن جیسے آئینی عہدوں کے ضمن میں وزیر اعظم اور پارلیمنٹ میں قائد حزب اختلاف میں مشاورت کی شرط رکھی گئی ہے اور اتفاق سے اپنے ساڑھے تین سالہ اقتدار میں ایسی تمام تقرریاں کرتے ہوئے عمران خان نے حزب اختلاف سے مشاورت کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
اب وزیر اعظم اپنے آئینی اختیار میں ایک ایسے شخص کو کیوں شریک کریں جو رسمی طور پر قائد حزب اختلاف بھی نہیں ہے۔ جس کی قومی اسمبلی کی رکنیت عدالت میں زیر سماعت ہے۔ اکتوبر کے تیسرے ہفتے میں آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے 29 نومبر کو اپنے سبکدوش ہونے کا واضح اعلان کیا تو دراصل عمران کی گزشتہ چھ مہینے کی سیاست بند گلی میں داخل ہو گئی۔ عمران اگر اب بھی اس ضمن میں کوئی توقعات رکھتے ہیں تو اسے ان کی سادہ لوحی ہی کہا جائے گا۔ عمران کا دوسرا ہدف قبل از وقت قومی انتخابات کا انعقاد ہے۔ اس ضمن میں ان کی سنجیدگی کا اندازہ پنجاب اور کے پی کی صوبائی حکومتوں سے لگایا جا سکتا ہے۔
پرویز الٰہی کی سیاست سے آشنا حلقے اچھی طرح جانتے ہیں کہ موصوف کا عمران سے اتحاد اقتدار کے دھاگے سے بندھا ہے۔ جہاں تک خیبر پختون خوا کا تعلق ہے تو 2014 کے دھرنے میں بھی اس وقت کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے استعفے ٰ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ وفاق سمیت موجودہ حکومتوں کی دستوری میعاد اگست 2023 تک ہے، اسمبلیاں توڑ کر قبل از وقت انتخابات کی گنجائش موجود ہے لیکن پی ڈی ایم کی حکومت موجودہ معاشی اور دیگر عوامل کی موجودگی میں ایسا نہیں کرنا چاہے گی۔
وجاہت مسعود کے بقول دراصل اپریل 2022 کے بعد ضمنی انتخابات، معاشی صورت حال اور جلسے جلوسوں میں عوامی ردعمل سے عمران کو اپنی مقبولیت کا یقین ہو گیا ہے۔ تاہم قومی انتخابات کی حرکیات بالکل مختلف ہوتی ہیں۔ 2018 کے انتہائی غیر شفاف انتخابات اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کی بھرپور حمایت کے باوجود تحریک انصاف سادہ اکثریت حاصل نہیں کر سکی تھی۔ عمران کے ساتھی سیاست دان یہ جانتے ہیں۔ لانگ مارچ کی غیر متاثر کن کارکردگی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انتخابی سیاست کرنے والے افراد قومی انتخابات سے صرف ایک برس قبل اپنے مالی وسائل اور سیاسی قوت ایک مخدوش سرگرمی پر خرچ کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اس کا ایک ثبوت 21 اکتوبر کی شام تب سامنے آیا جب الیکشن کمیشن کی طرف سے عمران کو نا اہل قرار دینے کے بعد ملک گیر احتجاج کے اعلان پر کسی شہر میں چند سو افراد بھی سڑکوں پر نہیں آئے۔
وجاہت مسعود کا کہنا ہے کہ عمران خان کی سیاست کا المیہ ان کی جمہوری اقدار اور دستوری حدود و قیود سے بے گانگی ہے۔ جمہوریت قوم کے تمام شہریوں کی مشاورتی عمل یعنی انتخاب کے ذریعے اجتماعی فراست سے استفادے کا نام ہے۔ لہکن عمران نے اپنے تمام مخالفین کو طاغوت قرار دے کر خود اپنی ذات کو ماورائے فطرت تقدیس کے درجے پر فائز کر رکھا ہے۔ ان کا کھلا مطالبہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سیاست سے لاتعلقی کے دستوری تقاضے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان کی حمایت کرے بلکہ انہیں جس طرح بھی ممکن ہو اقتدار کے سنگھاسن تک پہنچائے۔ لیکن 27 اکتوبر 2022 کی شام فوج کے دو سینیئر افسران نے واضح کر دیا کہ سیاست میں مداخلت کا فیصلہ کسی ایک فرد کا نہیں بلکہ ادارے کا ہے۔
ہماری قوم کی سلامتی، ترقی اور استحکام کے لئے اس سے بہتر کوئی راستہ نہیں ہو سکتا۔ یہ وہ خواب ہے جسے دیکھتے ہوئے ہمارے ملک میں کم از کم 5 نسلوں کا امکان رائیگاں گیا۔ اب اگر ان گنت نقصان دہ تجربوں کے بعد قومی قیادت اس نتیجے پر پہنچ گئی ہے کہ دستور کی بالادستی اور جمہوریت کے اتباع ہی میں قوم کی فلاح ہے تو ستم ظریفی ہے کہ خود کو قومی رہنما قرار دینے والا شخص نہ صرف فوجی اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی غیر جانبداری کی مخالفت کر رہا ہے بلکہ اسے اپنے حق میں استعمال کرنا چاہتا ہے۔