قطر کا سٹیڈیم بنانے والے مزدور خود اندر کیوں نہیں جا سکتے؟
قطر میں ایشیائی مزدوروں کی بڑی تعداد اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے فٹ بال سٹیڈیم میں میچ نہیں دیکھ پا رہی اور انہیں سٹیڈیم سے 20 کلومیٹر دور شہر سے باہر ایک کرکٹ سٹیڈیم میں بڑی سکرین پر میچز دکھائے جا رہے ہیں۔ یہ سکرین قطر کے جدید ترین کیپیٹل دوحہ کی چکا چوند سے دور ایشین انڈسٹریل زون کے علاقے میں نصب ہے، جہاں قطر کے فٹ بال ورلڈ کپ کی تیاریوں کے لیے آنے والے ہزاروں تارکین وطن مزدور مقیم ہیں۔
بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے ایک شخص موسیٰ نے بتایا کہ ’میں یہاں غلاموں کی طرح جیتا اور کام کرتا ہوں تاکہ یوگینڈا میں موجود میرے چھوٹے بہن بھائی اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھ سکیں اور دو وقت کی روٹی کھا سکیں۔ ہم نے یہا قطر۔میں ایسے حالات میں کام کیا جو کسی انسان کے بس کی بات نہیں، درجہ حرارت حد سے زیادہ اور دن میں چودہ سے پندرہ گھنٹے تک کام کرنا پڑتا ہے۔
تاہم ہر شخص کی سوچ موسیٰ جیسی نہیں ہے، بہت سے لوگ قطر کے شکر گزار ہیں کہ اس نے انھیں کام کرنے اور پیسہ کمانے کا موقع دیا۔ اُن میں انڈیا، پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال اور دیگر افریقی ممالک کے شہری شامل ہیں، ایک پاکستانی شہری کا کہنا تھا کہ یہاں کام کرنے والے پاکستانی کافی زیادہ ہیں مگر تنخواہ انتہائی کم ہے۔ لیکن قطر واکوں نے ہمارے ساتھ اچھا سلوک کیا ہے۔ قطر کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ 2014 سے 2020 کے دوران 37 مزدوروں کی موت ہوئی تاہم ان میں سے صرف تین کام کے دوران ہلاک ہوئے، ایک حکومتی ترجمان نے حال ہی میں بتایا تھا کہ اصلاحات کے باعث قطر میں کام کے حالات میں بہتری لائی ہے جو مشرق وسطیٰ کے کسی بھی ملک میں سب سے بہترین ہیں۔