واصف علی واصف دنیا ترک کرکے صوفی کیسے بنے؟
اپنے نام اور کام سے شہرت حاصل کرنے والے صوفی شاعر، مصنف اور مفکر واصف علی واصف کا کہنا تھا کہ جو شخص 10 سال سے زیادہ عرصے سے ایک ملک میں رہائش پذیر ہو، وہ ملک دشمن نہیں ہو سکتا۔ جس کے ماں باپ کی قبریں اس ملک میں ہیں وہ غدار نہیں ہو سکتا۔ واصف کی زیادہ شہرت بطور شاعر اور لکھاری ہے لیکن وہ ایک مدبر اور مفکر بھی تھے، تاہم جب لوگوں نے ان کا مزار بنا کر وہاں عرس کروانے اور دھمالیں ڈالنا شروع کر دیں تو ان کی شخصیت کا فکری پہلو دب گیا۔ ان کے قریبی رفقاء کا کہنا ہے کہ اگر واصف کو پتہ ہوتا کہ ان کی وفات کے بعد ان کا مزار بنایا جائے گا اور عرس منایا جائے گا تو وہ یقینا ًاپنے عقیدت مندوں کو ایسا کرنے سے منع کر دیتے۔
واصف نے پاکستانی سیاست پر بھی بہت کچھ لکھا تھا۔ اپنی ایسی ہی ایک تحریر میں وہ کہتے ہیں کہ ’حکومت نااہل ہوسکتی ہے، لیکن غیر مخلص نہیں ہو سکتی کیونکہ ملک سے وفا کرنا اور اسکے ساتھ مخلص ہونا حکومت کی بنیادی ذمہ داری تو ہے ہی لیکن ضرورت بھی ہے۔ ملک سلامت رہے گا تو حکومت قائم رہ سکتی ہے اسلئے حکومت کوئی بھی ہو اسکا ملک سے مخلص ہونا لازمی ہے۔‘
جنوری کا مہینہ ہر لحاظ سے واصف علی واصف کی یاد دلا دیتا ہے کیونکہ اس مہینے ان کی پیدائش ہوئی اور اسی مہینے وہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئے۔ واصف علی واصف 15 جنوری 1929 کو خوشاب میں پیدا ہوئے۔ مڈل تک تعلیم ہائی سکول خوشاب سے ہی حاصل کی جس کا پرانا اور اصل نام منموہن ناتھ ہائی سکول خوشاب تھا۔ اس کے بعد انہوں نے جھنگ سے گریجویشن کی اور پھر ایم اے انگلش لٹریچر کرنے کے لیے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہو گئے۔ انہوں نے سول سروس کا امتحان بھی پاس کیا لیکن ان کی طبیعت میں ملازمت نہیں درویشی تھی جس وجہ سے وہ سرکاری نوکری چھوڑ کر لاہور نابھہ روڈ پر واقع لاہور انگلش کالج میں درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوگئے۔ واصف اچھے استاد ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے شاعر بھی تھے اور نوائے وقت میں ہر ہفتے ان کا کالم بھی چھپتا تھا۔ مختلف اخباروں اور جرائد میں ان کا کلام چھپا کرتا تھا۔ چند اصحاب کے اصرار پر یہ کلام جمع کیا گیا اور یوں 1979 میں انکا پہلا مجموعہ کلام ’شب چراغ‘ مارکیٹ ہوا۔
اپنی اس تصنیف کے بعد عوام واصف کی جانب متوجہ ہوئے اور انکے رشد و ارشاد کی محفل سے مستفید ہونے لگے۔ شروع شروع میں محفل کی باقاعدہ شکل لاہور کے مشہور مقام ’لکشمی چوک‘ میں بننی شروع ہوئی۔ اسکے بعد قذافی سٹیڈیم میں واقع فزیکل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ میں ان سے فکری محفلوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا۔یہاں انہوں نے ایک ہزار راتیں خطاب کیا اور مختلف انواع کے موضوعات پر سوالات کے جوابات دیتے رہے۔ بعد میں یہ سلسلہ آپ کی قیام گاہ 22 فردوس کالونی گلشن راوی لاہور پر منتقل ہو گیا۔
اپنی ایک سیاسی تحریر میں وہ حکومت بارے لکھتے ہیں: حکومت نااہل ہوسکتی ہے، غیر مخلص نہیں۔ ملک سے مخلص ہونا حکومت کی ذمہ داری بھی ہے اور ضرورت بھی۔ ملک سلامت رہے گا تو حکومت قائم رہ سکتی ہے۔ اس لیے حکومت ہمیشہ مخلص ہی ہوتی ہے۔ حزب اختلاف حکومت کو غیر مخلص کہتی ہے اور حکومت اپنے مخالفوں کو وطن دشمن کہتی ہے، جو انسان 10 سال سے زیادہ عرصے سے ملک میں رہ رہا ہو وہ ملک دشمن نہیں ہو سکتا۔ جس کے ماں باپ کی قبر اس ملک میں ہے وہ غدار نہیں۔ ان کے کلام کی تاثیر بھی کمال تھی لکھتے ہیں: جھوٹا آدمی کلام الٰہی بھی بیان کرے تو اثر نہ ہوگا۔ صداقت بیان کرنے کے لیے صادق کی زبان چاہیے۔ بلکہ صادق کی زبان ہی صداقت ہے۔ جتنا بڑا صادق، اتنی بڑی صداقت۔ انسان کا اصل جوہر صداقت ہے، صداقت مصلحت اندیش نہیں ہوسکتی۔ جہاں اظہار صداقت کا وقت ہو وہاں خاموش رہنا صداقت سے محروم کر دیتا ہے۔ اس انسان کو صادق نہیں کہتے جو اظہار صداقت میں ابہام کا سہارا لیتا ہو۔ واصف علی واصف کے دو قول ایسے ہیں جو ہر آدمی کو اپنے پلے باندھ لینے چاہییں۔ پہلا یہ کہ ’اگر سکون چاہتے ہو تو دوسروں کا سکون برباد نہ کرو۔۔۔‘۔ انکا دوسرا قیمتی قول یہ ہے کہ ’اخلاق یہ ہے کہ اللہ کی رضا کے لیے اپنے مزاج کو بد اخلاق نہ ہونے دو۔‘ یہ واصف علی واصف ہی تھے جنہوں نے محبت میں غیر کی رائے کو حرام قرار دیا تھا۔
خوشاب کا یہ سپوت 18 جنوری 1993 کو 64 برس کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جاملا۔ انہیں جنازگاہ مزنگ کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا جہاں اب ایک مزار تعمیر ہو چکا ہے، ہر سال ان کا عرس منایا جاتا ہے جہاں پر دھمال پڑتی ہے۔ ان کے قریبی رفقاء کا کہنا ہے کہ اگر واصف کو پتہ ہوتا کہ ان کی وفات کے بعد ان کا مزار بنایا جائے گا اور عرس منایا جائے گا تو وہ یقیناً اپنے عقیدت مندوں کو ایسا کرنے سےمنع کردیتے۔